Thursday, 31 October 2024, 01:07:11 am
 
تعلیم اورصحت کی سہولیات کسی بھی معاشرے اورملک کی ترقی کیلئےبنیادی اہمیت رکھتی ہیں
February 09, 2022

میزبان :              چوہدری ضمیر اشرف

مہمان  :                وزیراعظم کے ہیلتھ سہولت پروگرام کے چیف ایگزیکٹو آفیسرڈاکٹر محمد ارشد قائم خانی

 

تعلیم اور صحت کی سہولیات کسی بھی معاشرے اور ملک کی ترقی کیلئے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں اور صحتمند معاشرہ ملکی ترقی، خوشحالی کیلئے لازم ہے ۔ پاکستان میں زیادہ آبادی چونکہ متوسط اور غریب طبقات پر مشتمل ہے اس لئے گھر میں بیماری کی صورت میں معاشی لحاظ سے ایک بڑی آفت بھی ساتھ آجاتی ہے کیونکہ علاج معالجہ کراتے کراتے پور ا گھرانہ معاشی طور پر مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے لوگوں کو علاج معالجے کی پریشانی سے بچانے کیلئے قومی صحت سہولت پروگرام کا آغاز کیا اور ہر خاندان کو ہیلتھ کارڈ کے زریعے دس لاکھ روپے تک مالی معاونت فراہم کی اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں علاج معالجے کے اس منفرد پروگرام نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔

قومی صحت سہولت پروگرام کے خدوخال اور اسکی اہمیت پر بات کرنے کیلئے ہمارے ساتھ موجود ہیں وفاقی ہیلتھ سہولت پروگرام کے چیف ایگزیکٹو

سوال : موجودہ حکومت نے صحت پروگرام کیوں شروع کیا اسکی ضرورت کیوں پیش آئی اور اسکی اہمیت کیا ہے۔ڈاکٹر محمد ارشد قائم خانیجواب: دنیا بھر میں اور پاکستان میں آج تک غربت کے حوالے سے جتنے سروے کئے گئے اْن میں ایک بڑی وجہ سامنے آئی جو علاج معالجہ کے ہنگامی اخراجات ہیں ۔ مثال کے طور پر گھر کے کسی فرد کو اچانک دل کی تکلیف آجائے اور علاج کے لئے دس سے بارہ لاکھ اخراجات درکار ہوں تو آپ تصور کر سکتے ہیں کہ وہ خاندان کسی بڑی مشکل سے دوچار ہوگا۔ جس ملک کی 99 فیصد آبادی ماہانہ کی آمدن ایک لاکھ روپے سے کم اور 93 فیصد آبادی 30ہزار روپے سے کم کماتی ہو تو آپ تصور کر سکتے ہیں کہ انہیں چند لاکھ روپے تو کیا چند ہزار روپے کا بھی انتظام کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور انکی کیفیت کیا ہوگی۔معاشرے کے افراد اپنی آمدن کے تناسب سے اپنا رہن سہن تو برقرار رکھ سکتے ہیں اور امیر وغریب اپنے وسائل کے مطابق چھوٹا بڑا گھر بھی رکھ سکتے ہیں تاہم جب بات اپنے پیارے کی زندگی اور موت کی اور ہنگامی علاج معالجے کی ہوتو سب کچھ لگانا پڑ جاتا ہے۔ زیور بک جاتا ہے ۔ جانور بیچ دیتے ہیں ۔ گھر بیچ دیتے ہیں لیکن اس بات کا 50 فیصد چانس ہوتا ہے کہ آپ کا پیارا صحتمند ہو کر گھر واپس آجائے۔لیکن دونوں صورتوں میں وہ خاندان خط غربت سے نیچے چلا جاتا ہے اور اسکی چار نسلیں مشکلات کا شکار رہتی ہیں۔ حکومت نے وزیراعظم عمران خان کے وژن کے تحت اس مصیبت کے آگے بند باندھنے کیلئے قومی صحت کار ڈ کا اجراء کیا ہے۔سوال : ڈاکٹر صاحب !۔ عام آدمی کو صحت کارڈ کا کیا فائدہ ہے۔جواب: عام آدمی کو ہنگامی طور پر اخراجات کیلئے اس کی ضرورت ہے ۔ صحت کے اندر بنیادی طو رپر تین قسم کے اخراجات ہیں۔ ایک OPD نزلہ زکام ۔ کھانسی دوسرا Chronic Medication جہاں آپ کو لمباعرصہ دوائی کھانا پڑتی ہے جسے ذیابطیس ۔ بلڈ پریشر اورتیسرا جو سب سے خطرناک ہے ہسپتال کے اندر داخلی اخراجات۔پہلی دونوں صورتوں میں نہ تو خاندان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مریض بھی زیادہ خطرے سے دوچار نہیں ہوتا۔ تاہم تیسری صورت میں ہسپتال کے اندر مریض اور اس کے گھرانے کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اور ہرصورت میں خاندان مالی طور پر تباہ ہوجاتا ہے۔ اس لئے عام آدمی کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس کے پاس ہیلتھ کارڈ ہو اور وہ کسی بھی ہنگامی علاج معالجہ کی صورت میں ذہنی اطمینان کے ساتھ علاج کرائے اور اْس کا یہ حق بھی ہے۔

سوال: ڈاکٹر صاحب۔ کیا سرکاری ملازمین بھی صحت کارڈ کی سہولت سے فائدہ اْٹھا سکتے ہیں۔ ؟جواب: میں جہاں بھی جاتا ہوں یہ سوال اکثر مجھ سے کیا جاتا ہے۔ سرکاری ملازمین ،پاک فوج کے جوان اور بھی اداروں کے ملازمین جن کو صحت کے حوالے سے کوئی سہولت میسر ہے اس حوالے سے ابھی حکومت نے کوئی پابندی نہیں لگائی آپ اپنے ادارے سے بھی علاج معالجے کی سہولت لے سکتے ہیں اور ہسپتال کے داخلی اخراجات ہیلتھ کارڈ کے ذریعہ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ البتہ آنے والے وقت میں حکومت ان اداروں کے متعلق ہیلتھ کارڈ سے متعلق ترجیحات کا تعین کرے گی ۔سوال : کیا قومی شناختی کارڈ پر بھی صحت سہولت کارڈ کی سہولت مل سکتی ہے۔جواب: بالکل درست سوال ہے کیونکہ جب عوام وزیراعظم کو عوامی اجتماعات میں صحت کارڈ تقسیم کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تووہ یہ سمجھتے ہیں اس کارڈ کا ہونا لازمی ہے ۔ تاہم یہ علامتی ہے اب تک جن اضلاع میں صحت سہولت پروگرام شروع ہو چکا ہے وہاں کے لوگ اپنے شناختی کارڈ پر مستقل پتہ کی بنیاد پر علاج کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں۔ عارضی پتہ والے اضلاع میں یہ سہولت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اسلام آباد میں مستقل پتہ کی بنیاد پر تمام شناختی کارڈ کو ہیلتھ کارڈ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ انہیں کسی اور کاغذ کی ضرورت نہیں۔ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق جو مستقل پتہ ہوگا وہی ضلع ہوگا۔ سوال: ہیلتھ کارڈ کے ذریعہ ایک سال میں کتنی رقم کی سہولت ہے اور کونسی بیماریوں کا علاج کرایا جاسکتا ہے۔جواب: داخلی علاج کیلئے کارڈ کارآمد ہے اور تمام بیماریوں کا علاج ہوسکتا ہے۔ اوربھی شامل ہے جن میں کرونا ، لیور وغیرہ شامل ہے۔کارڈ کی Face Value ایک سال میں دس لاکھ روپے ہے تاہم اگرکوئی مریض بائی پاس آپریشن کرواتا ہے اور اْس کے خاندان میں ایک سے زائد لوگوں کا آپریشن ہوتا ہے تو اسکی Value تیس لاکھ تک ہو جاتی ہے۔ایک سال میں ایک خاندان میں تین بائی پاس بھی ہوسکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ساڑھے سات سو سے زائد ہسپتالوں کے ساتھ بہترین

ریٹ کا معاہدہ کیا گیا ہے۔کیونکہ حکومت سب سے بڑی خریدار ہے ہیلتھ کے معاملے میں ۔سوال: ہیلتھ کارڈ سے ادائیگی کے متعلق مریض کو کیسے آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ اخراجات کے بارے آگاہ رہے۔جواب : پہلے دن سے تمام ہسپتالوں میں صحت کارڈ کائونٹر بنائے گئے ہیں تاکہ تمام معلومات میسر ہوں اور مریضوں کو شکایات نہ ہوں۔سوال: پسماندہ علاقوں یا دور افتا دہ اضلاع کے لوگوں کو ہسپتالوں سے متعلق معلومات کیسے ملیں گی۔ جواب: معلومات کیلئے وفاقی وصوبائی سطح پر بھرپور اشتہاری مہم چلائی جارہی ہے اور متعلقہ ویب سائٹس پر ہسپتالوں کی تفصیل دی گئی ہے ۔ ہیلتھ کے (0800-9009) ہیلپ لائن سے معلومات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔غیر سرکاری تنظیموں کو اس حوالے سے آگے بڑھ کر لوگوں کی رہنمائی کرنی چاہیے۔ اور ضلع کے منتخب ہسپتالوں کے بارے میں بتایا جائے۔سوال ہسپتالوں میں جنرل وارڈ کی سہولت ہے یا الگ سے کمرہ بھی دیا جاتا ہے۔جواب: قومی صحت کارڈ کے تحت جنرل وارڈ کی سہولت ہے ہم لگثرری کی بات نہیں کرتے ۔ ہمارا مقصد لوگوں کی جانیں بچانا ہے اور کوشش ہے کہ وارڈ اچھی حالت میں ہوں۔اگر کوئی کمرہ چاہتا ہے تو اپنے طور پر لے سکتا ہے۔سوال: حادثے کی صورت میں کیا صحت سہولت کارڈ استعمال ہو سکتا ہے۔جواب: بالکل دستیاب ہے ۔ خدانخواستہ کسی قسم کا حادثہ ہوجائے۔ تو آپ فوری کسی بھی ہسپتال ایمرجنسی سے رجوع کر سکتے ہیں۔ سوال: سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی اور معیار پر اس سہولت کے پروگرام کا کیا اثر ہوگا۔جواب: ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات او ر معیار میں اس پروگرام کے بعد بہتری آئے گی کیونکہ اب انکا مقابلہ بھی دوسرے ہسپتالوں کے ساتھ ہے۔ صحت سہولت پروگرام کے تحت مریض کیلئے 80 فیصد سے زائد نجی ہسپتالوں کی خدمات کوحاصل کیا گیا ہے ۔سوال: عالمی سطح پر اس پروگرام کو کیسے دیکھا جا رہا ہے۔جواب: اب حالت یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی جیب میں علاج کیلئے پیسے ڈال دیئے گئے ہیں اور اْ ن کا اب جہاں دل چاہے وہ علاج کروائیں۔جہاں اچھی سہولت ملے گی وہ ادھر جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں سرکاری اور نجی ہسپتال اپنی سہولیات پر خصوصی توجہ دیں گے۔ ہسپتالوں کو مریضوں کی توقعات پر پورا ْترنا ہوگا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک بننے جا رہا ہے جو اپنی تمام عوام کو صحت کی مفت سہولیات دے رہا ہے اب تک 15 کروڑ ہیلتھ کارڈ تقسیم کئے چاچکے ہیں اور 31 مارچ تک یہ تعداد 18 کروڑ ہو جائے گی۔ بلوچستان کی حکومت بھی جلد ہیلتھ کارڈ کا اجراء کرنے جا رہی ہے اور سندھ حکومت سے بھی بات چیت جاری ہے۔ سندھ حکومت بھی دلچسپی رکھتی ہے تاہم وہ جو ماڈل اختیار کرنا چاہیں اختیار کر سکتے ہیں توقع ہے کہ آئندہ چند ماہ میں 23 کروڑ لوگوں کو یہ سہولت میسر ہو جائے گی۔وفاقی حکومت بلوچستان اورسندھ حکومت کو ہر ممکن تعاون کرے گی۔ دنیا بھر میں ہیلتھ کئیر سے منسلک ادارے بڑے غور سے ہمارے اقدامات کو دیکھ رہے ہیں۔ اور حیران ہیں کہ پاکستان جیسا ترقی پزیر ملک اتنے بڑے ہیلتھ کے تجربے کا متحمل ہوسکتا ہے۔ وہ جانتے نہیںہیں اس قوم کے جذبے کو یہ جب کچھ کرنے پر آئے تو کر جاتی ہے۔انشاء اللہ ہم وہ پہلی قوم ہوں گے جو اس امتحان میں سرخرو ہوں گے اور صحت کے میدان میں یہ سہولت سب کو ملے گی۔ سوال: اس پروگرام کو مستقل طور پر چلانے کیلئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ جواب: اس پروگرام کو مستقل شکل دینے کے لئے ایکٹ آف پارلیمنٹ لایا جارہا ہے اور ہیلتھ انشورنس فنانس کمیشن قائم کیا جا رہا ہے۔ تاکہ آنے والی جو بھی حکومت ہو اس کو ختم نہ کرے بلکہ بہتر بنائے۔ سوال: خراب کارکردگی کی بنیاد پر ہسپتالوں کے خلاف کیا کاروائی ہوں گی۔جواب: ہسپتالوں میں ہیلتھ کائونٹرز کا مقصد شفافیت کو یقینی بنانا ہے اور جعلسازی کو ختم کرنا ہے علاج معالجہ کے دوران ویڈیو انٹرویو بھی شروع کیا گیا ہے۔اسی طرح تھرڈ پارٹی آڈٹ بھی کروایا جاتا ہے تاکہ ہیلتھ کارڈ کا غلط استعمال نہ ہو۔