Tuesday, 17 September 2024, 12:00:16 am
 
محبت کی لازوال داستان کے مرکزی کرداروں ''ہیر''اور''رانجھا''کا مزار
August 18, 2024

محبت کی لازوال داستان کے مرکزی کرداروں ''ہیر''اور''رانجھا''کا مزار جھنگ میں فیصل آباد روڈ پر واقع قدیمی قبرستان میں مرجع خلائق ہے۔

''ہیر رانجھا''کی رومانوی داستان کو پنجابی کے شکسپیئر ''وارث شاہ''نے دوام بخشا۔ جھنگ میں موجود ''ہیررانجھا''کا مزار دربار مائی ہیر کے نام سے مشہور ہے۔

یہ مقبرہ فن تعمیر کا نادر شاہکار ہے جسے ہیر اور رانجھا کے ایک عقیدت مند بادشاہ بہلول لودھی نے 876 ہجری میں تعمیر کروایا۔

یہ راز تو اللہ تعالی کی ذات ہی بہتر جانتی ہے کہ مراد بخش المعروف رانجھا بھی ہیر کے ساتھ ہی مدفن ہیں لیکن دو الگ الگ تعویز بنانے کی بجائی قبر پر ایک ہی چارپائی نما تعویز بنایا گیا ہے۔ اس مقبرہ کے اوپر ایک کھلا گنبد بھی بنایا گیا ہے۔ اس گنبد کو کھلا چھوڑنے کی حکمت تو مقبرہ تعمیر کروانے والا ہی بہتر جانتا ہوگا تاہم یہ تاثر بالکل غلط ہے بارش کا پانی مقبرے کے اندر داخل نہیں ہوتا۔

بارش تو اللہ کی رحمت ہے اور یہ مزار پر کیوں کر نہ برسے؟جب بھی بارش ہوتی ہے پانی مزار کے اندر بھی جاتا ہے۔ ہیر رانجھا کا مزار لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ جو بھی سیاح جھنگ آتے ہیں ''عشق صادق'' کی اس یادگار کی ایک جھلک ضرور دیکھتے ہیں۔ یوں تو عام ایام میں بھی اس مقبرے پر لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے تاہم ہر جمعہ کے روز یہاں پر لوگوں کا رش ہوتا ہے۔ یوں تو یہاں پر عقیدت مند ہر قسم کی منتیں مرادیں بر لانے کیلئے حاضری دیتے ہیں لیکن زیادہ تر تعداد ''پسند''کی شادی کرنے والوں کی ہوتی ہے۔ نوجوان جوڑے اپنی محبت کو پروان چڑھانے کے لئے اور شادی کے بندھن میں بندھ جانے کیلئے یہاں کر ''آس''کے دیپ جلاتے ہیں۔

ہر کوئی اپنا اپنا عقیدہ لے کر یہاں آتا ہے۔ منتیں ماننے والوں میں زیادہ تر تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو اپنے پسندیدہ جیون ساتھی سے بیاہ رچانے کی تمنا دل میں لئے اس مقبرہ پر حاضری دیتی ہیں۔

انسانی خواہشات کو پورا کرنا یا نہ کرنا ذات باری تعالی کے ہی اختیار میں ہے تاہم عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ ہم ہیر رانجھا کی سچی محبت کو وسیلہ بنا کر اللہ سے دعا مانگتے ہیں جو قبول فرماتا ہے۔

''ہیر''کے بارے میں روایت ہے کہ ان کا اصل نام عزت بی بی تھا جو ایک پاکدامن خاتون تھی۔ مراد بخش عرف رانجھا ہیر کا ارادت مند تھا جو ہیر کی محبت میں گرفتار ہوگیا لیکن یہ عشق دنیاوی نہیں تھا یہ وہ محبت تھی جو مرید کو پیر سے ہوتی ہے ۔ہیر کی وفات کا صدمہ برداشت نہ کرسکا اور وہ بھی چل بسا۔

ہیر اور رانجھا کے کردار کو موضوع بنا کر فلم سازوں نے فلمیں بنائیں۔ افسانہ نگاروں نے افسانے لکھے جن میں حقیقت کا رنگ کم ہی نظر آتا ہے۔ فلموں میں ''ونجھلی''یعنی بانسری رانجھے کے ہاتھ تھما کر اسے ''گلو کار''اور پھینسوں کی دیکھ بھال کرنے والا ''کاما''یعنی گوالا ثابت کیا گیا۔ تفریح کی حد تک فلموں اور ڈراموں میں تو یہ باتیں زیب دیتی ہیں لیکن ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جھنگ کے مرخ بلال زبیری کے مطابق ہیر کا شمار خدا کی برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے۔ اگر حقیقت میں ایسا ہے تو خدا کی نیک ہستیاں تو غیر محرم کی آواز تک نہیں سنتیں چھپ چھپ کر غیر محرم سے ملاقاتیں کرنا تو دور کی بات ہے۔ رانجھے کو ''چوریاں ''کھلانا بھی فلموں اور ڈراموں کی حد تک ہی محدود ہے۔

ہر مصنف اور ہر فلمساز نے ہیر اور رانجھا کو اپنے ہی رنگ میں ڈھال کر پیش کیا۔ ''سن ونجھلی دی مٹھڑی تان وے میں تاں ہو ہو گئی قربان وے''فلمی کرداروں پر تو بھاتا ہے انہیں اصل ہیر رانجھا سے منسوب کرنا حقیقت کے عین منافی ہے۔

مقامی مرخ کی تحقیق کی روشنی میں ''ہیر رانجھا''دو مقدس ہستیاں ہیں لغویات کو ان سے نسبت ددینا حقائق سے روگردانی ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان مٹ جاتے ہیں لیکن خدا اپنے خاص بندوں کے نام تاقیامت زندہ وجاوید رکھتا ہے۔ ''مائی ہیر''کا ظاہری مزار اس بات کا مظہر ہے کہ اس مقبرہ میں دفن ہستیاں کوئی عام نہیں ہیں۔