سال 2024ء کے دوران پاکستان کو غیرملکی تعلقات، معیشت اور کھیلوں سمیت مختلف شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
رپورٹ: سال 2024ء پاکستان کی سفارتکاری کے لئے فعال سال تھا۔
صدر آصف علی زرداری نے ترکمانستان کا دورہ کیا جہاں انہوں نے دس اور گیارہ اکتوبر 2024ء کے دوران اشک آباد میں امن اور ترقی کے لئے ادوار اور تہذیبوں کے باہمی تعلق کے بارے میں بین الاقوامی فورم میں شرکت کی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے آذربائیجان، چین، مصر، ایران، قازقستان، قطر، سعودی عرب، تاجکستان اور متحدہ عرب امارات کے دورے کئے۔
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے بھی آذربائیجان، بیلجیم، مصر، گیمبیا، ایران، اردن، سعودی عرب، ترکیہ اور برطانیہ کے اہم دورے کئے۔
ان دوروں سے دوطرفہ تعلقات اور اہم امور پر سیاسی افہام و تفہیم کو فروغ دینے اور تجارت اور سرمایہ کاری پر مبنی تعلقات کو وسعت دینے کا اہم موقع ملا۔
پاکستان اور خلیج تعاون کونسل کے رکن ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح کے وفود کا موثر تبادلہ ہوا۔ وزیراعظم محمدشہبازشریف نے سعودی عرب کے چار سرکاری دورے کئے۔
یورپی یونین نے پی آئی اے پر چار سال سے عائد پابندی ہٹا دی جس سے قومی فضائی کمپنی کی یورپ کے لئے پروازیں بحال ہو گئیں۔
پاکستان اس سال اکتوبر میں اسلام آباد میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان حکومت کے اجلاس کا سربراہ تھا۔
پاکستان کو دو سال26-2024 کے لئے ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے بورڈ آف گورنرز کا رکن اور اقوام متحدہ کے تخفیف اسلحہ کمیشن برائے2024 کا صدر نشیں منتخب کیاگیا۔
اقتصادی محاذ پر بھی پاکستا ن نے دو ہزار چوبیس میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
پاکستان کی مالیاتی امور کی ٹیم نے آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر مالیت کابیل آئوٹ پیکیج حاصل کیا جس سے معیشت کو استحکام ملا۔
افراط زر جو نومبر2023 میں انتیس اعشاریہ دو فیصد تھا ' ڈرامائی طور پر کم ہوکر اس سال چار اعشاریہ نو فیصد پر آگیا۔ سٹاک مارکیٹ میں تیزی آئی اور کے ایس ای ہنڈرڈ انڈیکس میں اٹھہتر فیصد اضافہ ہوا اور وہ ارجنٹائن کے بعد کارکردگی کے لحاظ سے دنیا کی دوسری بہترین مارکیٹ بن گئی۔
کھیلوں کے میدان میں بھی پاکستانی کھلاڑیوں نے اس سال نئے ریکارڈ قائم کیے۔ دوسری کامیابیوں کے علاوہ پاکستان کے ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں مردوں کے نیزہ پھینکنے کے مقابلے میں سونے کا تمغہ جیت کر پہلا اولمپک ٹریک اور فیلڈ میڈل جیتا۔
دعا ہے کہ دو ہزار پچیس مذاکرات کے ذریعے اختلافات پر قابو پانے' تنازعات کی جگہ تعاون کے فروغ اور سب کے لئے ترقی کے پیغام کا سال ثابت ہو۔