بھارت میں " ریپ کلچر" معاشرتی زوال کی عکاسی کرتا ہے۔
ریپ کلچر نے نہ صرف خواتین کی سلامتی کو متاثر کیا ہے بلکہ پورے معاشرتی تانے بانے میں بے چینی اور عدم تحفظ کی فضا پیدا کی ہے۔
بدعنوانی، حکومتی اداروں کی غفلت، بے حسی اور انصاف کی فراہمی میں ناکامی نے بھارت میں "ریپ کلچر" کے فروغ کی بڑی وجوہات ہیں۔
مودی کے بھارت میں ہر 16 منٹ میں ایک عورت ریپ جیسے گھناؤنے جرم کا شکار ہوتی ہے لیکن یہ جرائم پولیس کے ریکارڈ میں نہیں آتے۔
2012 کا خوفناک "دہلی نربھایا ریپ" ہو، اجین کی مصروف سڑک پر دن دہاڑے خاتون کی عصمت دری ہو یا پھر 2024کے کلکتہ کی ٹرینی ڈاکٹر کا ریپ اور قتل ہو، بھارت میں جنسی تشدد اور عصمت دری ایک قومی المیہ بن چکا ہے۔
تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے 2018 کے سروے کے مطابق، خواتین کے خلاف بڑھتے تشدد اور عصمت دری کے واقعات کی بنا پر" بھارت کوخواتین کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا"۔
بھارتی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی رپورٹ کے مطابق:
2022 میں بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم کے 445,256 مقدمات رجسٹرڈ ہوئے، جن میں سے31,516 مقدمات جنسی تشدد کے تھے
حالیہ سالوں میں بھارت میں ہر سال اوسطاً 30,000 سے زیادہ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو
عصمت دری کے بیشتر متاثرین خوف، انتقام اور ناکام و غیر موثر عدالتی نظام کے سبب انصاف سے محروم رہتے ہیں۔
گزشتہ سالوں میں سزا کی شرح محض 27-28 فیصد تھی، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عصمت دری کے الزام میں لگ بھگ چار میں سے تین افراد آزاد ہیں۔
کراؤن پراسیکیوشن سروس کے مطابق:
برطانیہ میں ریپ سے متعلق مقدمات کی سزا کی شرح 2024-2023 میں 60.2 فیصد تھی، جو گزشتہ سال 63.5 فیصد تک پہنچی۔
بھارت میں خواتین کی عصمت دری اور جنسی تشدد کا مسئلہ، خاص طور پر مودی کے دور حکومت میں ، اعداد و شمار کو دبانے اور میڈیا کنٹرول کے الزامات سے بھرا ہوا ہے۔
خواتین کے خلاف ریپ،ہراسگی و دیگر جرائم کی حقیقت زیادہ تر سوشل میڈیا کے ذریعے ہی آشکار ہوتی ہے۔
2023 اور 2024 کے این سی آر بی رپورٹ کے اجرا میں تاخیر کے پیچھے بھی مودی سرکار کی کار فرمانی ہے جو خواتین کے خلاف جرائم کی حقیقت کو سامنے لانے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں
بھارت میں طبقاتی تقسیم اور ذات پات کے نظام کی گہری جڑیں غریب اور نچلی ذات کی خواتین کو ریپ اور جنسی حملوں کا شکار بناتی ہیں۔
قومی جرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق:
2012 سے اب تک دلت خواتین کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں 169فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
2022 میں دلت خواتین کی عصمت دری کے 4,241 کیسز رپورٹ ہوئے،قومی جرائم ریکارڈ بیورو۔
قومی جرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق، بھارت میں روزانہ دلت خواتین کے ساتھ عصمت دری کے 10 واقعات کی تشویشناک تعداد رپورٹ کی جاتی ہے۔
دلت خواتین کے خلاف زیادتی کے مقدمات میں سزا کی شرح 2 فیصدسے بھی کم ہے جو وہاں کے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔
دوسری جانب منی پور جیسے متنازعہ علاقوں میں اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی خواتین جنسی تشدد، عصمت دری اور صنفی بنیاد پر تشدد کا شکار ۔
منی پور ریاستی کمیشن برائے خواتین کی رپورٹس کے مطابق:
ستمبر 2022 سے ستمبر 2023 تک، جنسی تشدد اور عصمت دری سے متعلق کل 59 مقدمات درج کیے گئے۔
کشمیر میں، جنسی استحصال کو خواتین کے خلاف جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، جہاں بھارتی سیکورٹی فورسز کے خواتین پر استحصال اور جنسی زیادتیوں کی متعدد رپورٹس موجود ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق:
جنوری 1989 سے اب تک بھارتی افواج کے ہاتھوں 15000 سے زائدعصمت دری، اجتماعی عصمت دری اور جنسی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
ان واقعات میں 1991 کا بدنام زمانہ" کنن-پوشپورہ واقعہ" شامل ہے جس میں بھارتی فوج نے 150 خواتین کی عصمت دری کی۔
ریپ کلچر بھارتی مسلح افواج میں سرایت کر چکا ہے، جہاں نہ صرف بھارتی خواتین بلکہ فوجی افسران اپنی ساتھی خواتین کو ہراسانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔
فوج میں ہراسانی اور جنسی تشدد کے متعدد کیسز بیشتر سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی توجہ کا مرکز بنتے ہیں، کیونکہ خواتین افسران پر بڑھتی ہوئی نگرانی رسمی رپورٹنگ کو روک دیتی ہے۔
نتائج کے خوف اور فوجی انصاف کے نظام میں عدم اعتماد کے باعث خواتین شکایات درج کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔
بھارتی مسلح افواج میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد اور ریپ کے متعدد واقعات سامنے آئے۔
ستمبر 2024 میں سری نگر ایئر فورس اسٹیشن پر ونگ کمانڈر کے خلاف خاتون افسر نے زیادتی کا الزام عائد کیا، جبکہ کانپور میں آرمی کرنل نے دوست کی بیوی سے زیادتی کی اور روپوش ہوگیا۔
خاتون افسر کا کہنا تھا کہ IAF حکام نے اس کی شکایت کو مناسب طریقے سے نمٹایا نہیں، جس کے بعد اس کو مجبورا پولیس سے رجوع کرنا پرا تھا۔
بھارت مقامی خواتین کے ساتھ ساتھ سیاحوں کے لیے بھی غیر محفوظ جگہ قرار۔
2022 میں بھارت میں غیر ملکی شہریوں کے خلاف 25 عصمت دری کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں سیاح بھی شامل تھے درج ہوئے۔
قومی جرائم ریکارڈ بیورو:
عصمت دری کے ان واقعات میں2 مارچ 2024 کو ایک 28 سالہ ہسپانوی سیاح خاتون کا واقعہ بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنا رہا جسکو جھارکھنڈ میں اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ تمام شواہد بھارت میں نہ صرف بڑھتے ہوئے ریپ کلچر کے فروغ کی طرف نشاندہی کرتے ہیں بلکہ بھارت میں اخلاقی پستی کو بھی عیاں کرتے ہیں۔