سینیٹ میں آج ایک قرارداد کی متفقہ منظوری دی گئی جس میں ہر بچے کو ان کی جنس، محل وقوع یا سماجی و اقتصادی حیثیت سے قطع نظر معیاری تعلیم تک رسائی دینے کے بنیادی حق کی فراہمی کا اعادہ کیا گیا۔
یہ قرارداد ثناء جمالی نے عالمی یوم خواندگی کی مناسبت سے پیش کی ۔
قرارداد میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں بچوں ،نوجوانوں اور خصوصاً بچیوں کی خواندگی کو فروغ دینے کے لئے موثر اقدامات اٹھائے اور پروگرام سے استفادے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر غیررسمی تعلیمی نظام کو بھی مضبوط بنائے۔
ایوان نے مہارتوں اور جدت پر مبنی تعلیمی ماڈلز کو فروغ دینے پر بھی زور دیا تاکہ سکول نہ جانیوالے بچوں اور خصوصاً بچیوں کو تعلیم کا حق دیا جا سکے اور خواندگی کے طویل عمل میں آسانی پیدا کی جا سکے۔
ایوان نے سفارش کی کہ تعلیم کی اہمیت کے بارے میں دیہی اور شہری آبادیوں کو آگاہ کرنے کیلئے جامع آگاہی مہم بھی شروع کی جائے۔
قرارداد میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ تعلیم اور خواندگی پروگراموں کے لئے فنڈنگ کو ترجیح دے کر اسے معقول طور پر بڑھائے اور بہترین لائحہ عمل تشکیل دے تاکہ ملک میں تعلیم کے لئے بجٹ کو مختص کرنے اور اسے بروئے کار لانے میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔سینیٹ میں آج چاربل پیش کئے گئے۔
ان میں سرکاری اداروں کے امور اور نظم ونسق کا ترمیمی بل مجریہ 2023، فوجداری قوانین کا ترمیمی بل مجریہ 2023 ، داسمارٹ انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کا ترمیمی بل مجریہ 2023 اور اطلاعات تک رسائی کا ترمیمی بل مجریہ 2023 شامل ہیں۔
چیئرمین نے یہ بل متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھیج دیے۔
پانچ ہزار روپے کے کرنسی نوٹ کے خاتمے کے حوالے سے سینیئر محسن عزیز کی جانب سے پیش کی گئی تحریک کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی امور کے وزیر مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ پانچ ہزار روپے کا کرنسی نوٹ 2006 میں جاری کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پانچ ہزار روپے کے 90کروڑ 50لاکھ کرنسی نوٹ زیر گردش ہیں اور ان کی کل قدر چار کھرب 50ارب روپے ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ کسی کرنسی نوٹ کو جاری رکھنا یا ختم کرنے کا فیصلہ کرنا سٹیٹ بنک کا کام ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان کی جانب سے پیش کی گئی ایک اور تحریک پر اظہار خیال کرتے ہوئے توانائی اور پیٹرولیم کے نگران وزیر محمد علی نے کہا کہ پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی منڈی کے مطابق مقرر کی جاتی ہیں۔
بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے انہوں نے بجلی کا فی یونٹ 90روپے تک بڑھانے سے متعلق اطلاعات کو مسترد کیا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ بجلی کا فی یونٹ نرخ 42روپے ہے جبکہ محفوظ صارفین کی فی یونٹ قیمت 12 سے 14 روپے ہے۔
گیس کی قیمتوں سے متعلق محمد علی نے کہا کہ حکومت تین ہزار چھ سوروپے فی یونٹ پر ایل این جی برآمد کرتی ہے جبکہ پروٹیکٹیڈ کیٹیگری کے تحت ان صارففین کی 57فیصد تعداد کو ایل این جی زیادہ سے زیادہ ڈھائی سو روپے فی یونٹ فراہم کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر گیس کی قیمت نہ بڑھائی گئی تو حکومت کو سالانہ 400ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا ہوگا۔
نگران وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی نے ایوان کو یقین دلایا ہے کہ وہ چمن کے لوگوں کی مشاورت سے ایک لائحہ عمل تشکیل دیں گے تاکہ ان کے خدشات دور ہو سکیں ۔
مختلف ارکان کی جانب سے اٹھائے گئے نکات اعتراض کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت واہگہ اور دیگر سرحدی گزرگاہوں کی طرز پرافغانستان کے ساتھ سرحد سے منسلک چمن سرحد کو باضابطہ بنانا چاہتی ہے۔
ایوان کا اجلاس اب کل صبح ساڑھے دس بجے ہو گا۔