آج اردو زبان کے نامور شاعر اور صاحبِ طرز نثرنگار جوش ملیح آبادی (1894 تا 1982 ) کی بیالیسویں برسی ہے ۔
انہیں 'شاعرِ انقلاب' کے لقب کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے ۔ جوش ملیح آبادی کا اصل نام شبیر حسن خان تھا ملیح آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بشیر احمد خاں بشیر، دادا محمد احمد خاں احمد اور پردادا فقیر محمد خاں گویا معروف شاعر تھے۔ اس طرح شاعری انہیں وراثت میں ملی۔
جوش ملیح آبادی کم عمری ہی میں ہی شعر کہنے لگے ۔ عزیز لکھنوی سے اصلاح لی۔ عملی زندگی کا آغاز دارالترجمہ عثمانیہ (ریاست حیدرآباد) میں ملازمت سے کیا ۔ تاہم نظام حیدرآباد کے خلاف ایک نظم لکھنے کی پاداش میں نوکری اور ریاست کی شہریت دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
دہلی آ کر رسالہ 'کلیم' جاری کیا ۔ آل انڈیا ریڈیو سے بھی تعلق رہا۔ حکومتِ ہند کے سرکاری رسالہ 'آج کل' کے بھی مدیر رہے ۔ انہیں 1954 میں پدما بھشن ایوارڈ سے نوازا گیا لیکن بھارت میں انتہا پسند ہندووں کی جانب سے اردو زبان کو لاحق خدشات کے پیش نظر 1955 میں وہ پاکستان چلے آئے اور پاکستانی شہریت حاصل کر لی۔
جوش ملیح آبادی نے پاکستان میں ابتدائی طور پر انجمن ترقی اردو کے بانی مولوی عبدالحق کے ہمراہ اردو زبان کی لغت کی تیاری میں خاطر خواہ کام کیا ۔ اس کے علاوہ رسالہ 'اردونامہ' کی بھی ادارت فرمائی۔
جوش ملیح آبادی نے پاکستان میں فلموں کے لیے نغمات بھی لکھے ۔ فلم 'آگ کا دریا' کے لیے لکھے ملی نغمے 'اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں' (جسے مسعود رانا نے گایا) نے بڑی شہرت حاصل کی۔جوش ملیح آبادی نے کالم نگاری بھی کی اور روز نامہ جنگ میں 'علم و فکر' کے عنوان سے کالم لکھتے رہے ۔
جوش ملیح آبادی کی شعری تصنیفات میں 'روحِ ادب' ، 'شاعر کی راتیں' ، 'نقش ونگار' ،'شعلہ اور شبنم' ، 'فکرو نشاط' ،'جنون و حکمت' ، 'حرف و حکایت' ، 'آیات ونغمات' ، 'عرش و فرش' ، 'رامش و رنگ' ، 'سنبل و سلاسل'، 'سیف و سبو' ، 'سرود و سروش'، 'سموم و صبا' ،'طلوع فکر'، 'الہام و افکار' ، 'موحد و مفکر' ، 'نجوم و جواہر'، 'جوش کے سو شعر' ، 'پیغمبرِ اسلام' ، 'جوش کے مرثیے' نمایاں ہیں ۔ جوش ملیح آبادی کی نثری کتابوں میں 'مقالاتِ زریں' ، 'اوراقِ سحر' ، 'اِرشادات' ، 'جذباتِ فطرت' ، 'مقالات جوش' ، 'مکالمات جوش' اور 'یادوں کی بارات' زیادہ مشہور ہیں ۔'یادوں کی بارات' 1972 میں کراچی سے شایع ہوئی ۔ اِس کتاب کے سبب وہ دس برسوں تک تنازعات میں گھر ے رہے ۔ انہیں بے حد دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور وہ حکومت کے عتاب کا نشانہ بنے رہے ۔جوش ملیح آبادی نے 22 فروری 1982 کو اسلام آباد میں 83 سال کی عمر میں وفات پائی ۔2013 میں جوش ملیح آبادی کو ان کی وفات کے تین عشروں کے بعد حکومتِ پاکستان کی طرف سے 'ہلال امتیاز' کا ایوارڈ دیا گیا ۔