وزیر اعظم عمران خان نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ افغان عوام کی خاطر افغانستان میں موجودہ حکومت کو مضبوط اور مستحکم کیا جائے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر عالمی برادری افغانستان کیلئے امداد کی فراہمی جاری رکھتی ہے تو یہ ہر ایک کیلئے بہتر صورتحال ہو گی تاکہ عالمی دہشتگردوں کی جانب سے افغان سرزمین دوبارہ استعمال نہ کی جاسکے۔انہوں نے کہا طالبان نے انسانی حقوق کے احترام ،ایک جامع حکومت کی تشکیل او ر دہشتگردوں کو اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت نہ دینے کا وعدہ کیا اور عام معافی کا بھی اعلان کیا۔وزیر اعظم نے واضح کیا کہ افغانستان کیلئے یہ ایک مشکل گھڑی ہے اگر ہم نے اس وقت انہیں نظر انداز کیا تو اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی پہلے ہی شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہے،اگلے سال تقریباً نوے فیصد افغان عوام خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ جنگ زدہ ملک میں بڑے انسانی بحران کے سائے منڈ لا رہے ہیں جس کے نہ صرف افغانستان کے ہمسایہ ملکوں بلکہ خطے پر سنگین اثرات مرتب ہونگے۔انہوں نے خبر دار کیا کہ ایک غیر مستحکم اور منتشر افغانستان بین الاقوامی دہشتگردوں کیلئے پھر ایک محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے۔اسلئے ہمیں مزید وقت ضائع کیے بغیر جنگ زدہ ملک سے بھرپور تعاون کرنا چاہئے۔دہشتگردی کے خلاف جنگ اور افغان تنازعہ کے پاکستان پر مرتب ہونے والے اثرات کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے اسی ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ایک سو پچاس ارب ڈالر کا معاشی نقصان اٹھایا ۔انہوں نے کہا کہ دنیا کو معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کے اندر چار سو اسی ڈرون حملے کئے گئے جنہوں نے عسکریت پسندوں کے حملوں سے زیادہ نقصان پہنچایا۔انہوں نے کہا کہ ان ڈرون حملوں میں مارے جانے والوں کے رشتہ داروں نے پاکستان سے انتقام لیا ،دو ہزار چار سے دو ہزار چودہ کے درمیان پچاس مختلف عسکریت پسند گروپ پاکستان پر حملے کر رہے تھے۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان کو افغان جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کی وجہ سے بہت زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔افغان سر زمین سے پاکستان پر حملے کیے جاتے رہے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے کردار کی تعریف ہونا چاہئے تھی لیکن افسوس ہے کہ افغانستان کے واقعات کا الزام پاکستان کو دیا جاتا رہا۔غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت مقبوضہ علاقے کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور وہ اس علاقے کو مسلم اکثریتی سے مسلم اقلیتی علاقے میں بدلنے کیلئے غیر قانونی اقدامات کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی اقدامات جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہیں ۔انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متعلق عالمی نکتہ نظر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ رویہ برابری کے اصول کے منافی ہے اور ایسے دوہرے معیارات بھارت کے حوالے سے انتہائی واضح ہیں جہاں آر ایس ایس اور بی جے پی کی حکومت کو بلا روک ٹوک انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔امن کیلئے پاکستان کی خواہش کا اعادہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کا انحصاراقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوںاور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازع کے حل پر ہے۔وزیر اعظم نے خبر دار کیا کہ بھارت کی فوجی طاقت میں اضافہ ، جدید جوہری ہتھیاروں کی تیار ی اور غیر مستحکم کرنے والی روایتی صلاحیتوں کاحصول دونوں ممالک کے درمیان کم سے کم دفاعی صلاحیت برقرار رکھنے کی کوششوں کو سبو تاژ کر سکتا ہے۔
اسلام مخالف پراپیگنڈے کے مسئلے سے مشتر کہ طور پر نمٹنے پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے بعض حلقوں کی طرف سے دہشتگردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے پر افسوس کا اظہار کیا۔عمران خان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پر زور دیا کہ وہ اسلام مخالف رجحانات کی روک تھام کیلئے عالمی مکالمے کا اہتمام کریں اور ہمیں بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کیلئے کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔وزیر اعظم نے کرونا وباء ،اقتصادی تنزلی اور موسمیاتی تبدیلی کے سہ جہتی بحران کے حل کیلئے ایک جامع حکمت عملی مرتب کرنے پر زور دیا۔پاکستان میں کرونا وباء سے پیدا ہونے والی صورتحال پر کامیابی سے قابو پانے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سمارٹ لاک ڈائون کی ہماری بھر پور حکمت عملی کے نتیجے میں انسانی زندگیوں کو محفوظ رکھنے ،ذرائع معاش کے تحفظ اور معیشت کا پہیہ بحال رکھنے میںبڑی مدد ملی۔اسی طرح سماجی تحفظ کے احساس پروگرام کے ذریعے ڈیڑھ کروڑ مستحق خاندانوں کو مالی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔موسمیاتی تبدیلی سے درپیش خطرات کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ اگر چہ مضر گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پاکستان کا شمار اُن دس ممالک میں ہوتا ہے جو دنیا میں موسمیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنی عالمی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور موثر ماحولیاتی اقدامات کیے جن میں ٹین بلین ٹری سونامی مہم کے ذریعے جنگلات اگانے، قدرتی ماحول کا تحفظ ،قابل تجدید توانائی کی منتقلی ،شہروں سے آلودگی کا خاتمہ اور موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات میںکمی لاناشامل ہیں۔