Tuesday, 22 October 2024, 06:29:47 am
 
قومی اسمبلی اورسینیٹ نے 26ویں آئینی ترمیم کا بل دوتہائی اکثریت سے منظورکرلیا
October 21, 2024

قومی اسمبلی اور سینیٹ نے26ویں آئینی ترمیم کابل2024 دوتہائی اکثریت سے منظورکرلیاہے۔

قومی اسمبلی میں 225ارکان نے ترمیم کی حمایت کی اور بارہ نے اس کی مخالفت کی جبکہ سینیٹ میں پینسٹھ ارکان نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالا اور چار نے اس کی مخالفت کی۔

آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی تقرری کے عمل اور مدت میں اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں اور سپریم کورٹ میں تمام صوبوں میں یکساں نمائندگی کے ساتھ آئینی بنچ قائم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

ترمیم میں ہائی کورٹس میں بھی آئینی بنچ قائم کرنے کا کہا گیا ہے۔

ہر آئینی بنچ کا سینئر ترین جج اس کا پریزائیڈنگ آفیسر ہوگا۔

آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی مدت تین سال مقرر کی گئی ہے۔

بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی تین سینئر ترین ججوں کے پینل سے پاکستان کا نیا چیف جسٹس نامزد کرے گی۔

قومی اسمبلی کے آٹھ اور سینیٹ کے چار ارکان پر مشتمل کمیٹی وزیراعظم کو نام تجویز کرے گی اور وزیراعظم حتمی منظوری کیلئے صدر مملکت کو نام بھجوائیں گے۔

اس کے علاوہ چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک جوڈیشل کمیشن آف پاکستان جس میں تین سینئرججوں' قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دو دو ارکان' قانون اور انصاف کے وزیر اٹارنی جنرل اور بار کونسل کا نامزد رکن شامل ہے جو سپریم کورٹ میں کم از کم پندرہ سال پریکٹس کا تجربہ رکھتا ہو سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کیلئے ذمہ دار ہوں گے۔

کمیشن ججوں کی کارکردگی کا بھی جائزہ لے گا اور کسی بھی قسم کے تحفظات کے بارے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کرے گا۔

آئینی ترمیم میں سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل سے متعلق شقیں بھی شامل ہیں جن کے تحت مضبوط اور مؤثر عدالتی ڈھانچے کو یقینی بنایا جائے گا جس میں چیف جسٹس آف پاکستان' سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججوں اور صوبائی ہائی کورٹس کے دو سینئر ترین چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل کونسل بھی شامل ہوگی۔

آئینی ترمیم کا سب سے اہم حصہ دو ہزار اٹھائیس سے ملک سے سود کا مکمل خاتمہ کرنا ہے۔

آئینی ترمیم میں یہ حصہ آرٹیکل 38 کے تحت شامل کیا گیا ہے جو پاکستان میں سود سے پاک اقتصادی نظام کے قیام کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔